جو دہر کی نظر میں خداوند ہوش ہے
جو دہر کی نظر میں خداوند ہوش ہے اس انتہائے ظلم پہ وہ بھی خموش ہے صحرا کی منزلوں سے پرے ہے وہ لالہ زار پردے میں جس کی رت کے کوئی مے فروش ہے تہذیب استوار کی خواہش کی راہ میں نام دگر حیات کا جوش و خروش ہے کل تو سنے گا ظلم سے میرا مکالمہ اپنا جہان آج ہی محتاج گوش ہے انساں پکارتا ہے ...