یہی اک مختصر سی داستاں سب کو سنانی ہے
یہی اک مختصر سی داستاں سب کو سنانی ہے
ہر اک موسم میں خوش رہنا یہی تو زندگانی ہے
مرے دل پر ہوئی دستک نہ جانے کون آیا ہے
فضا کی آہٹوں میں آج خوشبو زعفرانی ہے
تمہیں جب مجھ سے ملنا ہو تو اپنے آپ سے مل لو
تمہارے دل میں رہتا ہوں تمہاری بات مانی ہے
کہیں بالو کہیں پتھر کہیں کٹتے کنارے ہیں
کوئی کچھ بھی نہیں کہتا یہ دریا کی روانی ہے
دکھاتا ہے جو سب کو راستہ دنیا میں سوچو تو
یہ اس کا ہی اشارہ ہے اسی کی مہربانی ہے
چھپاؤں کس طرح خود کو میں ان نقلی نقابوں میں
حقیقت سامنے اک روز یارو آ ہی جانی ہے