ہاتھ سے ریت سی پھسلتی ہے

ہاتھ سے ریت سی پھسلتی ہے
زندگی جب ذرا سی ملتی ہے


خاکساری ہو جس کی فطرت میں
اس کو شہرت بھی خوب ملتی ہے


قربتوں فاصلوں میں گم ہو کر
زندگی پھر کہاں سنبھلتی ہے


آج بے شک خزاں کے جلوہ ہوں
باغ میں پھر کلی بھی کھلتی ہے


رات کہیے کہ شمع کہیے اسے
رفتہ رفتہ یہ عمر ڈھلتی ہے


لوگ ناداں ہیں کیا سمجھتے ہیں
کیا وبا چار دن میں ٹلتی ہے