یہی اک جسم فانی جاودانی کا احاطہ کرنے والا ہے
یہی اک جسم فانی جاودانی کا احاطہ کرنے والا ہے
کرائے کا مکاں ہی لا مکانی کا احاطہ کرنے والا ہے
ٹھہر جاؤ گھڑی بھر دھڑکنوں اس تیز رو کا جائزہ لے لوں
سکوں اندر کا باہر کی روانی کا احاطہ کرنے والا ہے
اسے آنسو سمجھ کر مت گراؤ رہنے دو پلکوں پہ ہی گویا
یہی قطرہ تمہاری بے زبانی کا احاطہ کرنے والا ہے
گلہ برسوں کا ہے جتنی صفائی دوگے اتنا طول پکڑے گا
اب حرف معذرت ہی لنترانی کا احاطہ کرنے والا ہے
ان آنکھوں میں غزل کا وہ مکمل استعارہ ہے کہ جو عازمؔ
خطوط جسم کے لفظ و معانی کا احاطہ کرنے والا ہے