یہاں تعین قدر حیات کیا کرتے
یہاں تعین قدر حیات کیا کرتے
کہ راستے ہی میں منزل کی بات کیا کرتے
قسم تو کھائی تھی منزل پہ جا کے دم لیں گے
پکڑ کے پاؤں مرا حادثات کیا کرتے
تھے کان بند تو آنکھوں کی گم تھی بینائی
صدائیں دے کے بھلا واقعات کیا کرتے
ہمیں تو فکر تھی واعظ کی رستگاری کی
ہم اپنے حق میں دعائے نجات کیا کرتے
ہماری تشنہ لبی تو رہین خنجر تھی
کوئی بتائے کہ لے کر فرات کیا کرتے
نوازش غم دوراں ہی کم نہ تھی ناطقؔ
ادھر وہ اپنا رخ التفات کیا کرتے