خود کو تنہائی میں غیروں کی نظر سے دیکھو
خود کو تنہائی میں غیروں کی نظر سے دیکھو
اپنا گھر دور بھی ہو کر کبھی گھر سے دیکھو
ماند پڑ جائیں گے اک روز یہ چہرے کے نقوش
آئنہ دیکھو تو عبرت کی نظر سے دیکھو
اچھی نظروں کا تو ہوتا ہے اثر بھی اچھا
عیب دیکھو جو کسی کا تو ہنر سے دیکھو
کتنی کاوش سے جلا دے کے سنوارا ہوگا
آئنے کو نگۂ آئنہ گر سے دیکھو
کوئی پہلو بھی سمجھ میں نہیں آتا اس کا
زندگی ایک معمہ ہے جدھر سے دیکھو
خوش نہ ہو دیکھ کے دشمن پہ بھی آفت کی گھٹا
سر پہ اپنے نہ کہیں ٹوٹ کے برسے دیکھو
یہ غلط ہے کہ نہیں ہے کوئی سننے والا
کتنی محروم ہے فریاد اثر سے دیکھو
کیا کہیں پھر کوئی سینچی گئی مقتل کی زمیں
بوئے خوں لے کے صبا آئی کدھر سے دیکھو
ہر شب تار کے دامن میں اجالے بھر دو
ہر اندھیرے کو چراغوں کی نظر سے دیکھو
داغ ہی داغ ہو ایسا تو نہیں ہے ناطقؔ
آدمی صاف جدھر سے ہو ادھر سے دیکھو