شکست خوردہ انا کے غلام سب ہی تھے
شکست خوردہ انا کے غلام سب ہی تھے
صفوں میں ہوتے کھڑے کیوں امام سب ہی تھے
ہوس کے گیسوئے پیچاں سے کوئی بچ نہ سکا
فقیر ہو کہ غنی زیر دام سب ہی تھے
پڑا جو رن تو سپر سونپ دی غنیموں کو
گھروں میں اپنے مگر بے نیام سب ہی تھے
کھلا ہے راز یہ اہل جنوں کی محفل میں
فسانہ ہائے خرد ناتمام سب ہی تھے
بچا سکا نہ اسے کوئی دست قاتل سے
حصار باندھے ہوئے خاص و عام سب ہی تھے
کسی کے لب پہ حقیقت نہ آ سکی کھل کر
شریک بزم تو یوں خوش کلام سب ہی تھے
بھلا زبان وہاں کیسے کھولتے ناطقؔ
جہاں دریدہ دہن بے لجام سب ہی تھے