شکست و ریخت کی حد سے گزر گیا ہوں میں
شکست و ریخت کی حد سے گزر گیا ہوں میں
سمیٹ لے کوئی آ کر بکھر گیا ہوں میں
کوئی صدا کوئی ٹھوکر جگا سکی نہ مجھے
یہ بے حسی کا فسوں ہے کہ مر گیا ہوں میں
زمانہ چشم حقارت سے دیکھتا ہے مجھے
تری نگاہ سے شاید اتر گیا ہوں میں
کسی بھی سمت سے ملتا نہیں سراغ کوئی
پتہ نہیں کہ کہاں ہوں کدھر گیا ہوں میں
دعائیں دیتے ہیں میرے جنوں کو ویرانے
اجڑ کے خود انہیں آباد کر گیا ہوں میں
وہ چند لمحوں کا رقص غبار ہی سمجھو
جو راہ زیست میں اکثر ابھر گیا ہوں میں
یہ واہمہ ہی سہی پھر بھی جائے عبرت ہے
کہ آپ اپنے ہی سائے سے ڈر گیا ہوں میں
زبان حال سے ناطقؔ غزل کے پیکر میں
تأثرات کے طوفان بھر گیا ہوں میں