یاد میں تیری کب بھلا شام سے دل جلا نہیں

یاد میں تیری کب بھلا شام سے دل جلا نہیں
اس کے سوا حیات میں کام کوئی رہا نہیں


لگتا ہے تم کو دیکھ کے رک سی گئی ہیں گردشیں
ورنہ یہاں تو دو قدم چلنے کا راستہ نہیں


جانے وہ اجنبی مجھے اپنا شناسا کیوں لگا
جب کہ ہمارے درمیاں کوئی بھی رابطہ نہیں


شام قفس نہ پوچھئے کیسی قیامتیں رہیں
ٹوٹیں بہت سی تیلیاں قیدی مگر اڑا نہیں


راہ گزار شوق میں دور تلک غبار ہے
کیسے اٹھاؤں میں قدم کچھ بھی تو سوجھتا نہیں


میرا وجود بے صدا لفظوں میں کیسے ڈھل گیا
تم نے تو خیر کہہ دیا میری کوئی خطا نہیں


لائی مجھے کہاں تلک دیکھیے میری بے خودی
آج مجھے یقیں ہوا عام یہ راستہ نہیں