بھرتے ہی چھلک جانا پیمانہ مزاجی ہے
بھرتے ہی چھلک جانا پیمانہ مزاجی ہے
سامان مصیبت یہ طفلانہ مزاجی ہے
ہم ہیں کہ دھڑکتے ہیں دل بن کے چراغوں کا
کیا آپ نے سمجھا ہے پروانہ مزاجی ہے
یہ قافلے شعروں کے یہ انجمن آرائی
غم خانۂ ہستی میں دیوانہ مزاجی ہے
کیوں آج یہ محفل میں خاموشیاں بکھری ہیں
گم سم ہیں کئی چہرے بیگانہ مزاجی ہے
بستا ہی نہیں کوئی سب جانے کو بیٹھے ہیں
اس گھر ہی کی قسمت میں ویرانہ مزاجی ہے
بدلے گا یہ موسم بھی یہ دور بھی گزرے گا
دیکھیں گے یہاں کب تک شاہانہ مزاجی ہے
ہم خاک ہوئے ایسے مٹتا ہی نہیں کوئی
لیکن وہی سودا ہے دیوانہ مزاجی ہے
ممتازؔ چلو اک دن تاروں سے کریں باتیں
انسانوں کی فطرت میں افسانہ مزاجی ہے