کمال شوق کی لذت سمیٹ لائی ہوں

کمال شوق کی لذت سمیٹ لائی ہوں
میں شہر جاں میں تمازت سمیٹ لائی ہوں


قدم قدم پہ مرا امتحاں ضروری ہے
زمانے بھر کی محبت سمیٹ لائی ہوں


شکستہ خوابوں کا میلہ لگا ہے آنگن میں
میں لکھ رہی ہوں کہ چاہت سمیٹ لائی ہوں


یہاں تو شعلوں کا انبار ملتا جاتا ہے
میں مطمئن تھی کہ جنت سمیٹ لائی ہوں


اٹھے ہیں سیکڑوں طوفاں جدھر اٹھائی نظر
میں دل کے ساتھ ہی آفت سمیٹ لائی ہوں


تمام عمر کی مجھ کو ملی ہے مزدوری
میں عمر بھر کی شکایت سمیٹ لائی ہوں


اے خاک دل تجھے کاجل بنا لیا میں نے
یہ کس قرینے سے وحشت سمیٹ لائی ہوں


اندھیری بستی میں جلنے لگے دیے ممتازؔ
میں جگنوؤں کی علامت سمیٹ لائی ہوں