یاد آئی ہے تری سخت مقام آیا ہے

یاد آئی ہے تری سخت مقام آیا ہے
دل کے صحرا میں یہ وقت سر شام آیا ہے


اک نئے رنگ میں آج ان کا پیام آیا ہے
آرزؤں کے لئے نام بنام آیا ہے


جاں بہ لب شوق کے سجدے بھی تڑپ اٹھے ہیں
ان کے انداز تغافل کو سلام آیا ہے


میرے غم خانہ کے اندوہ خموشی کا حریف
کیسی بیگانہ مزاجی کا کلام آیا ہے


ہل رہی ہے مرے زندان جنوں کی دیوار
پھر تصور میں ترا جلوۂ بام آیا ہے


انجمن ساز ہے یہ راز محبت اے دوست
ذکر جب آیا ترا بر سر عام آیا ہے


دل بیتاب کی حسرت نے بکھیرے سجدے
مجلس غیر میں بھی تیرا جو نام آیا ہے


چشم ساقی میں جھلکتی ہے مری لغزش شوق
کانپتے ہاتھ سے لب تک ابھی جام آیا ہے


عقل کو جوش جنوں دار و رسن تک لایا
عقل والوں کے کبھی ہوش بھی کام آیا ہے


تیری سرکار میں اخترؔ کی دعائیں گریاں
دل کا کشکول لئے تیرا غلام آیا ہے