دار پہ چڑھ کے جو تجدید وفا ہوتی ہے
دار پہ چڑھ کے جو تجدید وفا ہوتی ہے
اس شہادت پہ تو سو جان فدا ہوتی ہے
جن کو دعوئے خرد ہو ذرا آ کر دیکھیں
عشق کی راہ بہت ہوش ربا ہوتی ہے
درد میں ڈوبی نگاہوں کی زباں ہے گویا
اور باتوں سے گو یہ بات جدا ہوتی ہے
حسن جب سوز محبت سے جلا پاتا ہے
کیا تجلی پس فانوس وفا ہوتی ہے
ان حسیں آنکھوں میں ہے حسرت الطاف و کرم
دل ہی جانے یہ قیامت کی ادا ہوتی ہے
پھول کے دیدۂ پر نم کا یہ انجام بخیر
پتیاں جھڑتی ہیں شبنم بھی خفا ہوتی ہے
صبح تک حال دل زار پہ رو لو اخترؔ
اس گھڑی درد کے ماروں کی دوا ہوتی ہے