تم کو دیکھا ہے ابھی تک یہ گماں ہوتا ہے
تم کو دیکھا ہے ابھی تک یہ گماں ہوتا ہے
نقش جو دل میں ہے آنکھوں سے نہاں ہوتا ہے
شوق کا عالم اعجاز عیاں ہوتا ہے
کھنچ کے آتا ہے یہاں حسن جہاں ہوتا ہے
قصۂ درد خموشی سے عیاں ہوتا ہے
طور اظہار نظر طرز بیاں ہوتا ہے
رات خاموش ہے ایسے میں ستارو سن لو
دل مضطر مرا مائل بہ فغاں ہوتا ہے
میری ناکام محبت نے بڑا کام کیا
مدعا عالم حسرت میں جواں ہوتا ہے
خرمن زیست میں شعلے نہ بھڑک اٹھے ہوں
دامن دل کے قریب آج دھواں ہوتا ہے
ذکر خود چھیڑ کے رویا کیا پہروں اخترؔ
نام آتے ہی ترا اشک رواں ہوتا ہے