وہ ضد پے رہا ہے جھکانے پے حسنیٰ
وہ ضد پے رہا ہے جھکانے پے حسنیٰ
ہمیں تو رہے ہیں نشانے پے حسنیٰ
نگاہوں کا تیرے قہر ہی قہر ہے
ذرا تو رحم کر زمانے پہ حسنیٰ
جنہیں یاد کرکے صدیاں گنوا دی
لگے ہیں ہمیں وہ بھلانے پہ حسنیٰ
پتا چاہتا ہے محض چند سانسیں
ہیں بیٹوں کی نظریں خزانے پہ حسنیٰ
محبت کی راہوں میں سب کچھ مٹا کر
کششؔ ہے اڑی سر کٹانے کو حسنیٰ