سارے ہی زندگی کے فسانے بدل گئے
سارے ہی زندگی کے فسانے بدل گئے
موسم کی طرح دوست پرانے بدل گئے
سسکا ہے گھر کی چھت پہ پرندہ بھی رات بھر
کھائے جہاں نوالے گھرانے بدل گئے
شانوں پہ جس پتا نے دکھایا اسے جہاں
بٹیا بڑی ہوئی تو ٹھکانے بدل گئے
پینسٹھ کی عمر میں بھی چڑھی ہیں جوانیاں
آب و ہوا کے ساتھ سیانے بدل گئے
نکلی ہے قید اشک سے مدت میں یہ کششؔ
اس مرحلے کے بعد زمانے بدل گئے