وہ یقیں پیکر ہے کس کا نور دیدہ کون ہے

وہ یقیں پیکر ہے کس کا نور دیدہ کون ہے
ظلمت شب میں چراغ آسا دمیدہ کون ہے


گرد جادہ کون ہے منزل رسیدہ کون ہے
وقت کیا کہتا ہے سنئے برگزیدہ کون ہے


زہر غم پی جز و جاں کر پھر بھی موت آئے تو کیا
یوں بھی امرت کا یہاں لذت چشیدہ کون ہے


فرش سے تا عرش یکساں ہے صدائے مرحبا
دیکھنا یہ سر بکف یہ سر بریدہ کون ہے


بات کرتے ہیں تو منہ سے دودھ کی آتی ہے بو
ان میں اپنی محفلوں کا رنگ دیدہ کون ہے


خاک سے پا کر مفر کس کو نہ خوش آیا سفر
دل گرفتہ کون ہے خاطر کبیدہ کون ہے


اپنے سائے پر ہی جب مرکوز تھے ذہن‌ و نظر
کوئی کیوں کر دیکھتا قامت کشیدہ کون ہے


جب در کردار پر آنچ آ گئی کیا رہ گیا
اب یہ صرف ماتم رنگ پریدہ کون ہے


کس قدر شائستگی سے کہہ گیا وہ اپنا غم
دوستوں کی خیر ہو دشمن گزیدہ کون ہے


غم نہ کر غوثیؔ اگر مردہ نہیں تیرا ضمیر
تجھ سے بڑھ کر خود ترا دیدہ شنیدہ کون ہے