سب کچھ تو زندگی کی متاع سفر میں ہے

سب کچھ تو زندگی کی متاع سفر میں ہے
جب تم نظر میں ہو تو زمانہ نظر میں ہے


یوں بھی تو سوچ ناز کش حسن دوستاں
تیرا بھی کچھ مقام کسی کی نظر میں ہے


پڑھ لیتے ہیں وہ سب کی نظر سے دلوں کا حال
اندر سے کون کیا ہے سب ان کی نظر میں ہے


کیوں ہو رہا ہے تجزیۂ جور ناروا
تصویر کا یہ رخ بھی کسی کی نظر میں ہے


یارو شکار وقت ہوں یا آسماں شکار
جو کچھ بھی ہوں سب اہل نظر کی نظر میں ہے


اب کیا شکایت روش دوستاں کروں
غوثیؔ مری کمی بھی تو میری نظر میں ہے