وہ ترا شہر ترے شہر کا ہر رنگ جدا یاد آیا

وہ ترا شہر ترے شہر کا ہر رنگ جدا یاد آیا
آنکھ بند ہوتے ہی اک منظر تمثیل نما یاد آیا


بے نیازانہ وہ دل داریٔ جاں پرسش غم کی کوشش
آنکھ بھر آئی ہے جب جب ترا انداز وفا یاد آیا


جب دل زار ہر اک چیز سے تھک ہار کے اکتا سا گیا
ایک اک پل جو ترے ساتھ گزارا تھا بڑا یاد آیا


صبح دم صحن وطن نغمۂ مرغان چمن سے معمور
ایسی پر شور سی تنہائی میں تو حد سے سوا یاد آیا


رنگ کی قوس قزح جب کبھی بادل کی جبیں پر ابھری
وہ مرا شعلہ سخن دلبر رنگین قبا یاد آیا