وہ تنہا تھا تو پھر تنہائی کا دم ساز ہونا تھا

وہ تنہا تھا تو پھر تنہائی کا دم ساز ہونا تھا
ان آنکھوں کے لیے مجھ کو ستارہ ساز ہونا تھا


سبھی خاموش تھے آواز پر اس کی سو ایسے میں
مجھے چپ تو نہیں رہنا تھا ہم آواز ہونا تھا


جو دل میں تھا وہ اک ویران گنبد ہی میں کہہ دیتا
یہ میرا عہد تھا مجھ کو اثر انداز ہونا تھا


مرے لب پر زمانے کی شکایت کس لیے آئی
اگر یہ شور تھا تو اس کو بے آواز ہونا تھا


نہ جانے مجھ سے کتنے لوگ تھے جو سوچتے یہ تھے
کہ ان سے اک نئی تاریخ کا آغاز ہونا تھا


جہاں زخمی تمناؤں کی سرحد ختم ہوتی تھی
وہاں سے اک نئی امید کا آغاز ہونا تھا


یہ کار عشق تھا اشفاقؔ مجھ سے ہو نہیں پایا
مجھے بھی شاعری میں صاحب اعجاز ہونا تھا