ایسے نہیں ہوتا

بس اک اپنے تحفظ کے لیے
دنیا کو کتنا بے تحفظ کر دیا تم نے
یہ دنیا وہ نہیں
جو آج سے پہلے تھی
یہ فرمان جاری کر دیا تم نے
مگر تم کون سی دنیا میں رہتے ہو
یہ دنیا تو وہی ہے
جس میں جب چاہو
تم اپنے حکم منواتے ہو
طاقت کی زباں میں بات کرتے ہو
تمہارے حکم کو جو ماننے میں دیر کرتے ہیں
تم ان کو اپنی دہشت سے ڈراتے ہو
شکستہ ہڈیوں کو آتشیں تنور کا ایندھن بناتے ہو
جو مفلس ہیں انہیں تم اور بھی مفلس بناتے ہو


یہ دنیا آج سے پہلے بھی
کب محفوظ تھی اتنی
مگر محفوظ تھے تم اپنی دیواروں کے اندر
اور اس دیوار کی ایک اینٹ
آج اپنی جگہ سے ہل گئی ہے
صرف اک اینٹ
اور قیامت مچ گئی ہے
ذرا سی چوٹ کو
حوا بنا رکھا ہے تم نے
آسماں سر پر اٹھا رکھا ہے تم نے
حساب خوں بہا کے نام پر
دنیا میں ہنگامہ مچا رکھا ہے تم نے
مگر اپنا حساب خوں بہا لینے سے پہلے
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
صنم دکھلائیں گے راہ خدا ایسے نہیں ہوتا
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہو چکا ایسے نہیں ہوتا