وہ نظر ہے سراغ میں دل کے

وہ نظر ہے سراغ میں دل کے
پھول مہکے ہیں داغ میں دل کے


حسرتوں کی نہ پوچھ کیفیت
خون دل ہے ایاغ میں دل کے


جل بجھی ایک ایک آس مگر
گل ہے روشن چراغ میں دل کے


وہ جو آئے تو آئے صبح بہار
گھپ اندھیرا ہے باغ میں دل کے


پھر اسی گل بدن کی یاد آئی
پھر مہک سی ہے داغ میں دل کے


یوں جھلکتا ہے پیار ان آنکھوں میں
چاند جیسے ایاغ میں دل کے