کتنا ہشیار ہوا کتنا وہ فرزانہ ہوا

کتنا ہشیار ہوا کتنا وہ فرزانہ ہوا
تیری مستی بھری آنکھوں کا جو دیوانہ ہوا


آہ یہ عالم غربت یہ شب تنہائی
اک قیامت ہوئی دھیان ایسے میں تیرا نہ ہوا


اک جہاں آج بھی ہے اس کے طلسموں میں اسیر
سب کا ہو کر بھی جو عیار کسی کا نہ ہوا


تجھ کو اپنانے کا یارا تھا نہ کھونے ہی کا ظرف
دل حیراں اسی الجھاوے میں دیوانہ ہوا


کیفیت اس کی جدائی کی نہ پوچھو یارو
دل تہی ہو کے بھی چھلکا ہوا پیمانہ ہوا


ہائے وہ لطف و کرم اس کے ستم سے پہلے
کر کے بیگانہ زمانے سے جو بیگانہ ہوا


روز محشر نہ بنایا شب غم کو ہم نے
ذکر تیرا ہی بس افسانہ در افسانہ ہوا


کرب راحت ہے کبھی اور کبھی راحت کرب
اک معما یہ مزاج دل دیوانہ ہوا


ایک محسوس قرابت کی وہ خوشبوئے بدن
جس کو چھونے کا تصور میں بھی یارانہ ہوا


کیفیت درد تمنا کی وہی ہے کہ جو تھی
تیرا اظہار وفا بھی دم عیسیٰ نہ ہوا


جانے کس جان بہاراں کی لگن ہے کہ سلامؔ
دل سا معمورۂ وحشت کبھی صحرا نہ ہوا