کبھی ٹوٹا نہ افسون ستم تیری حضوری کا

کبھی ٹوٹا نہ افسون ستم تیری حضوری کا
بہت نزدیک رہ کر بھی رہا احساس دوری کا


کہاں تک ساتھ دے گی دیکھیں اپنی بے نیازی بھی
خمار تشنگی خمیازہ ہے دشت صبوری کا


ہزاروں آفتابوں کے لہو سے تمتماتا ہے
بھرم اک مسکراتے چہرۂ زیبا کی نوری کا


حضور ارشاد اپنا میری آنکھوں میں بسا دیجے
کہ پھر شاکی نہ ہو کوئی بیاں منظر سے دوری کا


یہ محرومی تو اپنی بے بسی ہی کی مکافی ہے
صلہ کچھ اور ہونا چاہیے تھا ناصبوری کا


محبت خود فراموشی سے گزری اب یہ عالم ہے
کہ اک عالم تماشائی ہے اپنی بے‌ شعوری کا