قیامت آئے گی مانا یہ حادثہ ہوگا
قیامت آئے گی مانا یہ حادثہ ہوگا
مگر چھپا ہوا منظر تو رونما ہوگا
مصاحبوں میں گھرے ہوں گے ظل سبحانی
غنیم شہر کو تاراج کر رہا ہوگا
ابھی فضا میں تھی اک تیز روشنی کی لکیر
نہ جانے ٹوٹ کے تارا کہاں گرا ہوگا
عزیز مجھ سے تھا انعام میرے سر کا اسے
رئیس ایک ہی شب میں وہ ہو گیا ہوگا
ہوئی جو بات تو وہ عام آدمی نکلا
گمان تھا کہ نئے رخ سے سوچتا ہوگا
رہے گا سامنے کب تک یہ نیلگوں منظر
یہ آسمان کہیں ختم تو ہوا ہوگا
عجب سفر ہے مجھے بھی پتا نہیں اظہرؔ
کہ اگلے موڑ پہ کردار میرا کیا ہوگا