رنگتیں معصوم چہروں کی بجھا دی جائیں گی
رنگتیں معصوم چہروں کی بجھا دی جائیں گی
تتلیاں آندھی کے جھونکوں سے اڑا دی جائیں گی
حسرت نظارگی بھٹکے گی ہر ہر گام پر
خواب ہوں گے اور تعبیریں چھپا دی جائیں گی
آہٹیں گونجیں گی اور کوئی نہ آئے گا نظر
پیار کی آبادیاں صحرا بنا دی جائیں گی
اس قدر دھندلائیں گے نقش و نگار آزرو
دیکھتے ہی دیکھتے آنکھیں گنوا دی جائیں گی
فرصتیں ہوں گی مگر ایسی بڑھیں گی تلخیاں
صرف یادیں ہی نہیں شکلیں بھلا دی جائیں گی
اس قدر روئیں گی آنکھیں دیکھ کر پچھلے خطوط
آنسوؤں سے ساری تحریریں مٹا دی جائیں گی
رات کے جگنو پہ ہوگا چڑھتے سورج کا گماں
ظلمتیں ماحول کی اتنی بڑھا دی جائیں گی