اب یہ معیار شہر یاری ہے
اب یہ معیار شہر یاری ہے
کون کتنا بڑا مداری ہے
ہم نے روشن چراغ کر تو دیا
اب ہواؤں کی ذمہ داری ہے
اک مسلسل سفر میں رکھتا ہے
یہ جو انداز تازہ کاری ہے
کون رہتا ہے اپنی حد میں یہاں
کس کو احساس ذمہ داری ہے
عمر بھر سر بلند رکھتا ہے
یہ جو انداز انکساری ہے
صرف باہر نہیں محاذ کھلا
میرے اندر بھی جنگ جاری ہے
مٹ رہی ہے یہاں زبان و غزل
اور غالب کا جشن جاری ہے