وہ مرا موجوں سے لڑ لڑ کر ابھر کر دیکھنا

وہ مرا موجوں سے لڑ لڑ کر ابھر کر دیکھنا
دوستوں کا دور ساحل سے سمندر دیکھنا


ہم کئی صدیاں تمہارے نام پر لکھ جائیں گے
تم بھی اک لمحہ ہمارے نام لکھ کر دیکھنا


ہو صدف کی چاہ تو تہہ میں اترنا شرط ہے
کیا کناروں پر کھڑے یوں ریت پتھر دیکھنا


مر مٹے ہو جس کے تم چشم و لب و رخسار پر
اس بت کافر کے باطن کا بھی منظر دیکھنا


کیسا طوفان حوادث کیا تلاطم کیا بھنور
دیکھ لو ان سب کو تم پھر میرے تیور دیکھنا


سر نگوں ساحل سے ٹکرا کر پلٹتی موج کے
ولولے چاہو تو پھر طوفاں میں رہ کر دیکھنا


گردش سیارگاں قسمت بتاتی ہے اگر
کام پھر کس کا ہے تاروں کا مقدر دیکھنا


ہے صباؔ ہر رات کی تقدیر میں نور سحر
روشنی دیکھے گا اپنا بھی مقدر دیکھنا