جب نیا موڑ لینے کو تھی زندگی وقت نے اک نئی داستاں بخش دی

جب نیا موڑ لینے کو تھی زندگی وقت نے اک نئی داستاں بخش دی
نام ان کا مرے دل پہ کندہ کیا یوں مجھے زندگی جاوداں بخش دی


اس کی نظروں نے کچھ ایسا جادو کیا طاقچوں میں دئے جھلملانے لگے
اک دیا جل اٹھا حجرۂ قلب میں جس نے الفت کو صوت اذاں بخش دی


میری آنکھیں مرے کان میری زباں حاکم وقت نے رہن میں رکھ لیے
ہاتھ پیروں کو کٹوا دیا بعد میں پر یہ احساں کیا میری جاں بخش دی


حسن کو دی ادا عشق کو دی وفا اس طرح سے مساوات قائم ہوئی
جن سے قائم مساوات ہو نہ سکی ان کو اک فکر سود و زیاں بخش دی


دولت عشق کی تھیں فراوانیاں ہجر کا مال کھل کر خریدا گیا
میری پلکوں پہ روشن ستارے کئے اس طرح سے مجھے کہکشاں بخش دی


خاک کو خاک کرنا ہی مقصد تھا جب کس لئے پھر زمیں پر خلیفہ کیا
نیکیوں کے لئے کم ملائک نہ تھے ہم کو یہ ذمہ داری کہاں بخش دی


اے صباؔ ہم تو گونگی رعایا میں تھے ظلم کے سامنے لب ہلاتے نہ تھے
بولنا آ گیا ہم کو حق کے لئے اس نے جب سے قلم کو زباں بخش دی