وہ خوش سخن تو کسی پیروی سے خوش نہ ہوا
وہ خوش سخن تو کسی پیروی سے خوش نہ ہوا
مزاج لکھنوی و دہلوی سے خوش نہ ہوا
ملال یہ ہے کہ آخر بچھڑ گیا مجھ سے
وہ ہم سفر جو مری خوش روی سے خوش نہ ہوا
تجھے خبر بھی ہے کیا کیا خیال آتا ہے
کہ جی ترے سخن ملتوی سے خوش نہ ہوا
فقیر شاہ نہیں شاہ ساز ہوتا ہے
یہ خوش نظر نگہ خسروی سے خوش نہ ہوا
سجے ہوئے ہیں ابھی دل میں خواہشات کے بت
یہ سومنات کبھی غزنوی سے خوش نہ ہوا
وہ آدمی ہے جو آب حیات کا پیاسا
شراب عیسوی و موسوی سے خوش نہ ہوا
وہ کم سخن تو مرا دشمن سخن نکلا
غزل سے خوش نہ ہوا مثنوی سے خوش نہ ہوا
اسی کو آیا سر آنکھوں پہ بیٹھنے کا ہنر
جو اپنی حیثیت ثانوی سے خوش نہ ہوا
رؤف خیرؔ بھلا تم سے کیسے خوش ہوگا
وہ مولوی جو کسی مولوی سے خوش نہ ہوا