وہ دور خوابوں کے ساحلوں میں عذاب کس کے ہیں خواب کس کے
وہ دور خوابوں کے ساحلوں میں عذاب کس کے ہیں خواب کس کے
یہ کون جانے کہ اب رتوں میں عذاب کس کے ہیں خواب کس کے
یہ کون جانے کہ کس کا چہرہ غبار لمحوں میں خاک ہوگا
یہ کون جانے کہ اب دنوں میں عذاب کس کے ہیں خواب کس کے
یہ زرد چہرے کی ساری زردی یہ بانجھ آنکھوں کا رتجگا پن
یہ پوچھتے ہیں کہ آئنوں میں عذاب کس کے ہیں خواب کس کے
جبیں پہ ابھری ہوئی شکن میں یہ کس کی یادوں کا عکس غم ہے
یہ وقت کے بہتے دائروں میں عذاب کس کے ہیں خواب کس کے
یہ دھوپ چھاؤں یہ خار کلیاں یہ ساحلوں کی ہوا کی خوشبو
یہ استعاروں علامتوں میں عذاب کس کے ہیں خواب کس کے
یہ کون جانے کہ کرب کیا ہے اداس لہجے میں درد کیا ہے
یہ کون جانے کہ اب دلوں میں عذاب کس کے ہیں خواب کس کے
تمام خلقت دکھوں کی تختی گلے میں لے کر کھڑی ہوئی ہے
جو روز ہوتے ہیں سانحوں میں عذاب کس کے ہیں خواب کس کے
یہ جرم گندم ہمارا ورثہ سہی مگر یہ حیات دانشؔ
جو کاٹتے ہیں ہم ان دکھوں میں عذاب کس کے ہیں خواب کس کے