جہاں وہم و گماں ہو جائے گا کیا
جہاں وہم و گماں ہو جائے گا کیا
یہاں سب کچھ دھواں ہو جائے گا کیا
ستارے دھول اور مٹی بنیں گے
سمندر آسماں ہو جائے گا کیا
تمہارا عشق تو لا حاصلی ہے
یہ غم بھی رائیگاں ہو جائے گا کیا
یوں سر پر ہاتھ رکھ کر چل رہے ہو
تو اس سے سائباں ہو جائے گا کیا
یہ میرا اختتام زندگی بھی
کہیں پہ درمیاں ہو جائے گا کیا
کسی کا دکھ سمجھتا ہی نہیں جو
زمانہ مہرباں ہو جائے گا کیا
بہت کچھ ہے یہاں کہنے کے لائق
مگر سب کچھ بیاں ہو جائے گا کیا
ہاں آدم کی نشانی ہے یہ انساں
مگر یہ بے نشاں ہو جائے گا کیا
مجھے مرنا تو ہے اک روز دانشؔ
مگر یہ ناگہاں ہو جائے گا کیا