وہ چہرے جو تھے حسن کے طوفان کی طرح
وہ چہرے جو تھے حسن کے طوفان کی طرح
کمروں میں چپ ہیں کاغذی گلدان کی طرح
یہ چاند یہ بہار کی راتیں گواہ ہیں
ہم اب بھی اپنے گھر میں ہیں مہمان کی طرح
بے شک حضور آپ خدا کی طرح رہیں
جینے کا حق ہمیں بھی ہے انسان کی طرح
میں آج زندگی کی کڑی منزلوں میں ہوں
خود کہہ رہا ہوں ملیے تو انجان کی طرح
پہلے گمان یہ تھا کہ میں خود ہوں راز زیست
اب پھر رہا ہوں شہر میں نادان کی طرح
لاؤ میں اس کو ساغر دل میں سنبھال لوں
بوتل میں اک پری ہے مری جان کی طرح
غالب کے شہر شاہد و نغمہ میں ہم سلام
بکھرے پڑے ہیں میرؔ کے دیوان کی طرح