وہ بے جان شجر
آج سویرے آفتاب آنے کے بعد
مجھے میرے کل کے پہنے پینٹ کی جیب پر
اک خون سے لت پت رومال ملا
ساتھ ملی کچھ سوکھی ہوئی نظمیں
جو کل شب میں نے لکھی تھی
ان سوکھی نظموں کو تکیے تلے رکھ کر
میں نے کل کا واقعہ یاد کیا
کچھ دھندھلی سی تھی اس واقعے کی تصویر میرے ذہن پر
یا یوں کہوں میں اس واقعے کو صاف دیکھنا نہیں چاہتا تھا
کل شب میں نے اس تازہ لاش کو ہاتھ جو لگایا تھا
کل شب اس لاش کے خون کا سرخ قطرہ مرے رومال پر جو لگا تھا
کل شب کچھ رقیبوں نے اس کا قتل جو کیا تھا
کل شب وہ بے حد عظیم شاندار شجر مرا تھا
کل تلک جو دیتا تھا اپنی چھانو کا شامیانہ
آج وہ پڑا تھا لا وارث سا وہ بے جان شجر