کون گنہ گار
آج صبح جب آسماں پر کالے
گھنیرے ابروں کا بسیرا تھا
میں اپنے بام پر رکھی میز پر
کل کے اخبار کے ورق پلٹ رہا تھا
اک خبر دکھی اس میں جو اتر نہیں رہی تھی
ذہن سے کئی مرتبہ دھیان بھٹکانے کی
جد و جہد بھی کی پر کامیاب نہ ہوا
اخبار بھی مرجھا گیا تھا اس خبر سے
شاید عذاب تھا اسے بھی
کیسے کوئی انسان دوسرے انسان کو مار دیتا ہے
کچھ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس
دوسرے انسان کے سرخ خون کے دھبے میرے اخبار
کے ورق پر بھی پڑے تھے
اک عجیب سی تازے خون کی بو آنے لگی تھی
کون تھا گنہ گار اس قتل کا
وہ پہلا انسان جس کی تھی فطرت ایسی
یا خود خدا
جس نے بنایا تھا وہ قاتل انسان
فیصلہ ابھی بھی باقی ہے