وہ عورت
گھر کی عزت کا بھرم رکھتی رہی وہ عورت
زندگی جیتی رہی اپنی سنبھالے حرمت
اپنے بچوں کے لئے جیتی رہی تھی اب تک
زہر حالات کا خود پیتی رہی تھی اب تک
عمر بھر ظلم و ستم ہنستے ہوئے سہتی رہی
اپنے ہی آپ سے گزری جو اسے کہتی رہی
صرف اک چھت ہی ملی پیار کا سایہ نہ ملا
مطمئن زیست کا غنچہ نہ کبھی دل کا کھلا
بال بچے بھی جواں ہو کے ہوئے بیگانے
ماں پہ کیا بیت گئی اس سے رہے انجانے
لیکن یہ طوق غلامی اسے اب توڑنا ہے
وقت کے دھارے کو اپنی ہی طرف موڑنا ہے
اب جیے گی وہ یہاں ذات کی خاطر اپنی
ایک دن خود سے ملاقات کی خاطر اپنی
اپنی پہچان پہ پیکر پہ یہ دل وارے گی
ہارتی آئی ہے اب اور نہیں ہارے گی