تمہاری یاد
کہاں ہے نیند آنکھوں میں
پٹکتی سر اداسی ہے
ستم کی خاک سے لپٹی
تھکن ہے بد حواسی ہے
مرے آنسو بھگوتے ہیں
مرا تکیہ مرا بستر
تمہارے بعد سے اب تک
یہ میرا حال ہے بد تر
چلے یہ نبض بھی مدھم
توازن میں نہیں دھڑکن
لگے یہ سانس بھی بھاری
کی اب دنیا لگے بندھن
نہیں ہو ساتھ تم میرے
مجھے ہر پل لگے صدیاں
بڑی مشکل سے کٹتی ہیں
اداسی سے بھری گھڑیاں
سمجھ میں یہ نہیں آتا
ہے جس سے جنموں کا ناطہ
وہ جب یوں چھوڑ جاتا ہے
تو کتنا یاد آتا ہے