وقت کی قدر

اے کہ تو غفلت میں ہے ڈوبا ہوا
کام کرنا سیکھ تجھ کو کیا ہوا
آدمی ڈٹ کر اگر محنت کرے
پھر کما لے اپنا زر کھویا ہوا
غور سے دوبارہ پڑھ لینے کے بعد
یاد ہو جائے سبق بھولا ہوا
اور کمزوری میں ورزش کے طفیل
خوب موٹا ہو بدن سوکھا ہوا
لیکن اس دنیا میں ایسا کون ہے
وقت واپس لائے جو گزرا ہوا
جس نے اپنے فرض کی پروا نہ کی
ایک دن پچھتائے گا روتا ہوا
فیضؔ منزل پر پہنچ سکتا نہیں
کوئی سیدھی راہ سے بھٹکا ہوا