تلوار اور قلم
تیز سی تلوار سادہ سا قلم
بس یہی دو طاقتیں ہیں بیش و کم
ایک ہے جنگی شجاعت کا نشاں
ایک ہے علمی لیاقت کا نشاں
آدمی کی زندگی دونوں سے ہے
قوم کی تابندگی دونوں سے ہے
جو نہیں ڈرتے قلم کی مار سے
زیر کرتے ہیں انہیں تلوار سے
جب قلم پاتا نہیں کوئی سبیل
اس گھڑی تلوار ہے روشن دلیل
حکمرانی کو قلم درکار ہے
امن کی ضامن مگر تلوار ہے
علم کے میدان میں رازیؔ بنو
جنگ کے میدان میں غازی بنو
وقت پر مضمون لکھو زور دار
وقت پر ڈٹ کر لڑو مردانہ وار
وہ پڑھے لکھے جو بے تلوار ہیں
ان کی ساری ڈگریاں بیکار ہیں
بزم میں اشعار کے گوہر مفید
رزم میں تلوار کے جوہر مفید
آج تک جو بھی ہوا ہے با وقار
تھا کوئی جرنیل یا مضموں نگار
فیضؔ کو جتنا قلم سے پیار ہے
اتنی ہی پیاری اسے تلوار ہے