جنگ اور نیکی
غور کے قابل ہے دنیا کا نظام
اس کا ہر ذرہ ہے عبرت کا مقام
جنگ سے ہوتی ہے پیدا مفلسی
مفلسی سے امن ہو جاتا ہے عام
امن میں قومیں کہاں لیتی ہیں مال
مال سے بڑھتا ہے کبر اے نیک نام
کبر ہے پھر پیش خیمہ جنگ کا
بس یہی چکر ہے جاری صبح و شام
آئے دن ہوتی ہیں یوں تبدیلیاں
کوئی آقا بن گیا کوئی غلام
آدمی کو زندگی میں چاہیے
ہر گھڑی کرتا رہے نیکی کے کام
نیکیوں کا فیضؔ جاری ہو اگر
خود بخود مٹ جائیں یہ جھگڑے تمام