وقت بھی تیور بدلتا جائے گا
وقت بھی تیور بدلتا جائے گا
دل بھی اپنی چال چلتا جائے گا
رفتہ رفتہ عمر ڈھلتی جائے گی
آئنے کا رخ بدلتا جائے گا
جذبۂ ایثار دل میں ہو اگر
مسئلوں کا حل نکلتا جائے گا
دوریاں بھی قرب بنتی جائیں گی
چاند میرے ساتھ چلتا جائے گا
آپ کو ملتی رہے گی روشنی
دل ہمارا یوں ہی جلتا جائے گا
خون دل اپنا بہ نام انگبیں
اپنے پیمانے میں ڈھلتا جائے گا
اس پہ مشرق مہرباں ہوگی ولیؔ
جو بھی گر گر کر سنبھلتا جائے گا