حقیقت ہے کہ ننھا سا دیا ہوں
حقیقت ہے کہ ننھا سا دیا ہوں
مگر ہر حال میں جلتا رہا ہوں
جمال صبح سے نا آشنا ہوں
کسی تاریک شب کی بد دعا ہوں
وہ ایسا چھا گیا ہے ذہن و دل پر
جدھر دیکھوں اسی کو دیکھتا ہوں
کوئی تو ڈھونڈ کر مجھ کو نکالے
میں اپنے شہر جاں میں کھو گیا ہوں
جو ہے تمثیل حسن پارسائی
ولیؔ میں ایسا رند پارسا ہوں