کوئی ہر مرض کی دوا بانٹتا ہے
کوئی ہر مرض کی دوا بانٹتا ہے
خلوص و محبت وفا بانٹتا ہے
مسیحائی پر اس کی قربان جاؤ
مرض دینے والا شفا بانٹتا ہے
نہ دیکھا ہے جس نے کبھی اپنا چہرہ
وہی شہر میں آئینہ بانٹتا ہے
سمجھتا ہے خود کو جو بہلول دانا
چلو چل کے دیکھیں وہ کیا بانٹتا ہے
یہاں کون کیا کس کو دیتا ہے ہر اک
مقدر کا لکھا ہوا بانٹتا ہے
خدا جس کو توفیق دے اس جہاں میں
وہی درد دل کی دوا بانٹتا ہے
ولیؔ اس کی جادو بیانی نہ پوچھو
وہ خواب حقیقت نما بانٹتا ہے