اک لڑکی
یہ دیوانی سی اک لڑکی
حسیں بھی دل ربا بھی ہے
ابھی معصوم ہے لیکن
وفا سے آشنا بھی ہے
مرے گھر کی ہیں دیواریں
اسی کے رنگ سے روشن
اسی کے دم سے پاکیزہ
مری امید کا آنگن
جبیں اس کی سحر جیسی
اذاں دیتی ہوئی آنکھیں
نظر کا امتحاں لیتی
شب تاریک سی زلفیں
نگاہیں زندگی جیسی
ادائیں چاندنی جیسی
وفا اس کی مری خاطر
عصائے موسوی جیسی
تقدس حور کے جیسا
سراپا نور کے جیسا
مکمل حسن ہے اس کا
مرے دستور کے جیسا
نگاہوں کے لیے میری
یہ ہے تنویر مستقبل
یہ صبح نو کی منزل ہے
یہ ہے تصویر مستقبل
ہر اک انداز ہے اس کا
دھنک منظر کا ہمسایہ
ولیؔ یہ لاڈلی بیٹی
مری ہستی کا سرمایہ
یہ دیوانی تو ہے لیکن
یہی دانش نشاں ہوگی
اسی کی گود میں پل کر
نئی دنیا جواں ہوگی