وحشت میں دل کتنا کشادہ کرنا پڑتا ہے

وحشت میں دل کتنا کشادہ کرنا پڑتا ہے
ان گیلی آنکھوں کو صحرا کرنا پڑتا ہے


مجھ کو اک آواز تری سننے کی کوشش میں
کتنے سناٹوں کا پیچھا کرنا پڑتا ہے


تب کھلتی ہے ہم پر قدر و قیمت پھولوں کی
جب کانٹوں کے ساتھ گزارا کرنا پڑتا ہے


یار بڑا بن کر رہنا آسان نہیں ہوتا
اپنے آپ کو کتنا چھوٹا کرنا پڑتا ہے


کوہ گراں حائل ہوتا ہے جس کے رستے میں
اک دن اس کو تیز دھماکہ کرنا پڑتا ہے


اپنے گھر کی باتیں عازمؔ گھر تک رکھنے میں
دیوار و در سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے