وحشت غم میں سکوں زیست کو ملتا بھی کہاں
وحشت غم میں سکوں زیست کو ملتا بھی کہاں
تھا بیابان میں دیوار کا سایا بھی کہاں
ایک مدت سے نہ یاد آئی نہ جاں تڑپی ہے
دل تجھے بھول گیا ہو مگر ایسا بھی کہاں
حسن بھی وہ نہ رہا پہلا سا دل دار ہنر
آہ پہلی سی وہ اب عظمت تیشہ بھی کہاں
مصلحت بیں ہے اگر عشق جنوں پیشہ تو کیا
اب وہ پہلے کی ترا وسعت صحرا بھی کہاں
کوئی منزل ہی نہ تھی منزل غم سے آگے
قافلہ اپنی تمناؤں کا رکتا بھی کہاں
غیر محدود خلاؤں میں سفر کرتا ہوں
اور رسائی کا یہ عالم ہے کہ بھٹکا بھی کہاں
نکہت و نور سے معمور فضا ہے پھر بھی
تو کہ اس راہ گزر سے ابھی گزرا بھی کہاں
حرم و دیر سے یہ سر جو کشیدہ آیا
جھک گیا در پہ ترے اور یہ جھکتا بھی کہاں
خاک اڑاتا ہے ابھی دشت طلب ہی میں سلامؔ
دل رسوا یہ ہوا ہے ابھی رسوا بھی کہاں