وہی دلوں کو شکست کرنا وہی سوال و جواب کرنا
وہی دلوں کو شکست کرنا وہی سوال و جواب کرنا
کہاں سے سیکھا ہے تو نے ناصح قدم قدم احتساب کرنا
وہ اپنے موتی برس برس کر نہ اس طرح رائیگاں کرے گی
کبھی نہ اس چشم نیل گوں سے امید مثل سحاب کرنا
جہاں بھی مل جائے دیکھ لینا وہی ہے جان وفا کی صورت
وہی نگاہیں جھکائے رکھنا حیا سے چہرہ گلاب کرنا
بہار خون جگر پلا کر جنھوں نے تجھ کو شباب بخشا
یہ کیا غضب ہے کہ فصل گل میں انہیں کو خانہ خراب کرنا
یہ فرض سونپا ہے باغبانوں کو رات صیاد نے چمن کے
کہ لوریاں دے کے کل عنادل کو اور بھی محو خواب کرنا
کبھی یہ سوچا بھی میرے یارو کہ اس میں آخر ہے فائدہ کیا
جو چند لمحے ہیں زندگی کے انہیں کو نذر عذاب کرنا
کسی طرح بھی نہ آنے پائے کوئی جھلک شاعری میں اظہرؔ
ہر اک غزل خواہ اپنے دل میں اسی کے نام انتساب کرنا