وفاؤں کا جو دعویٰ ہو رہا ہے
وفاؤں کا جو دعویٰ ہو رہا ہے
بتاؤ کیا تماشا ہو رہا ہے
مجھے سچی محبت کا گماں تھا
یہاں پر بس دکھاوا ہو رہا ہے
ہمیں سکھلا رہے ہیں گر سبھی کو
ہمیں سے پھر چھلاوا ہو رہا ہے
رقیبوں پر عنایت کر رہے ہو
مرے غم کا مداوا ہو رہا ہے
وہ سنتا ہی نہیں ہے شعر میرے
ہنر اپنا یہ ضائع ہو رہا ہے
بہت معصوم بن کر پوچھتے ہیں
تمہیں حمزہؔ بھلا کیا ہو رہا ہے