وفا سے پشیماں جفا ہو رہی ہے
وفا سے پشیماں جفا ہو رہی ہے
محبت کی قیمت ادا ہو رہی ہے
دوا ہو رہی ہے دعا ہو رہی ہے
مگر دل کی الجھن سوا ہو رہی ہے
ڈبوئی ہے جس نے ابھی دل کی کشتی
وہی آس پھر ناخدا ہو رہی ہے
گلوں میں بھی ہے رنگ بیگانگی کا
عجب اس چمن کی ہوا ہو رہی ہے
نگاہوں سے پردے ہٹے جا رہے ہیں
خودی کی خدائی فنا ہو رہی ہے
طلب پر بھی حسن طلب کی ہے کوشش
نظر کچھ مزاج آشنا ہو رہی ہے
مرے درد کی ابتدا کرنے والے
ترے ظلم کی انتہا ہو رہی ہے
تری راہ میں مٹنے والوں کی قسمت
فنا کو بھی حاصل بقا ہو رہی ہے
ستم کو ستم جرمؔ ہرگز نہ کہتے
اگر یہ سمجھتے خطا ہو رہی ہے