وفا کی خو پس جاہ و جلال رہ گئی تھی

وفا کی خو پس جاہ و جلال رہ گئی تھی
انا کے خول میں وہ بے مثال رہ گئی تھی


کھٹک رہی ہے نہ جانے کیوں آج بھی دل میں
جو ایک بات درون سوال رہ گئی تھی


ملا جو موقع تو ہم فائدہ اٹھائیں گے
کہ پچھلی بار ادھوری دھمال رہ گئی تھی


جناب قیس بھی مرنے میں حق بہ جانب تھے
کہ شہر بھر میں وہی خوش خصال رہ گئی تھی


سمے کی گرد نے اوجھل کیے سبھی قصے
مگر جو ایک تھی چاہت کمال رہ گئی تھی


غلط کہا تھا کہ راحت ملی محبت سے
یہ زندگی تو تھکن سے نڈھال رہ گئی تھی


یہ لوگ آگ لگانے میں اتنے ماہر تھے
مصالحت تو پس اشتعال رہ گئی تھی


میں اوڑھے پھرتا ہوں اب جون کے مہینے میں
نشانی اس کی جو اک زرد شال رہ گئی تھی


وہ مثل درد پڑا رہ گیا تھا سینے میں
سو اس کی یاد بھی بن کے ملال رہ گئی تھی


کبھی نہ سوچا عمرؔ اس کو ٹھیس پہنچے گی
اسے مری مجھے فکر عیال رہ گئی تھی